کسی کو نہ خدا بنا
کہ تو ہے اپنا ناخدا
نہ عقل کو خدا سمجھ
نہ دل پہ کر تو اکتفا
بس اک قدم ہے یہ جہاں
تو اپنے دَم پہ گر اٹھا
حیات کو دوام ہے
فریب ہے یہاں قضا
کہیں عطا ہے اک طلب
کہیں طلب بھی ہے عطا
ہے سازِ ہست و بود بس
یہ غم ہے یا خوشی ہے کیا
جو تھا وہ تھا جو ہے وہ ہے
جو ہے کبھی کہیں گے تھا

0
5