امیرِ شہر تیرے سارے جملوں سے جی اٹھ گیا |
پریشاں ہے نہیں کویٔ مسلوں سے جی اٹھ گیا |
ہے وہ غذا کہاں پہ دہقاں کو ہے یہ سلام اب |
کسٹ کی کھاتے ہیں سبھی پہ فصلوں سے جی اٹھ گیا |
یقیں ہے تیرا با پ بھی طوائفوں کے گھر میں تھا |
معاف کرنا پر تری یہ نسلوں سے جی اٹھ گیا |
وضو تو کرتے ہو پی کر شراب تم بہت اے شیخ |
معاف کرنا پر تمھارے غسلوں سے جی اٹھ گیا |
سو اب پلاؤ ھمیں یہ دست سے اے پاک تم پری |
جو سچ سو اب یہ ہم کہے پیالوں سے جی اٹھ گیا |
یاں تو عبید خیر حال کی یہ باتیں کرتے ہو |
ہمارا تو یاں اگلوں اور پچھلوں سے جی اٹھ گیا |
معلومات