دیکھا خواب ایسا ، جان کی پروا بھی نہ رہی
کیا تھا اس میں کہ جہان کی پروا بھی نہ رہی
جس کی خاطر ہوئے بے گھر ، کیسا مکان تھا وہ
کہ بڑوں کے بنائے مکان کی پروا بھی نہ رہی
پیسہ دولت چھوڑ آئے ، ایسا کیا لائے
کہ یہ قیمتی سے سامان کی پروا بھی نہ رہی
کھلے آنکھ جہاں وہ جا محبوب سی ہوتی ہے
کیا دیکھا جنم استھان کی پروا بھی نہ رہی
وا جُنوں سے بڑھا لٹا کارواں منزل کی جانب
جاں لیوا تیر و کمان کی پروا بھی نہ رہی
اگنے والی ہوں گی فصلیں ، بیج کے چل آئے
مکئی گندم اور دھان کی پروا بھی نہ رہی
جس کے لیے کٹی گردنیں بھی لٹی عورتیں بھی
وہ ہے ایماں جس ایمان کی پروا بھی نہ رہی
تھا ان کا خواب یہی محسن ،ہو جدا ہی وطن
ہم کو جس پاکستان کی پروا بھی نہ رہی

0
2
300
بہت خوب

شکریہ استاد محترم

0