| کسی نے وعدہ کیا تھا دوام کا، گیا وہ لمحوں میں |
| میں وقت بانٹتی رہی، وہ بکھر گیا پلوں میں |
| مجھے خبر نہ تھی، یہ بدن بھی اک سند ہوتا ہے |
| وہ چھو کے لوٹ بھی آیا، مگر رہا دُور سایوں میں |
| میں خواب بیچتی رہی ہوں وفا کے بازار میں |
| وہ تولتا رہا مجھے، کسی اور کی وفاؤں میں |
| مرے خلوص کا سودا، کسی زیور کے بدلے تھا |
| وہ ہنس کے دے گیا زخم، بہت گہرے لفظوں میں |
| یہ کیسا عشق تھا، جو دُعا سے عاری رہا |
| نہ عرضِ وصل، نہ ہجر کا نوحہ تھا ساعتوں میں |
| وہ میرے نام کی سانس تک نہ لے سکا |
| اور میں لپٹ کے روتی رہی اُس کی باتوں میں |
| عجیب شخص تھا، وہ نباہ نہ کر سکا |
| کہ اس کا پیار بھی ڈولتا رہا ترجیحاتوں میں |
معلومات