گستاخی ہے اس منہ سے کروں تیری مدح میں |
الفاظ لرزتے ہیں کروں کیسے میں اظہار |
پھر بھی ہے ضروری کہ ہو اظہارِ حقیقت |
خورشید فلک کیسے رہے در صفِ اسرار |
ہے تیری وداعی کہ قیامت کی گھڑی ہے |
ہیں چاک گریباں ابھی یاں ہر در و دیوار |
ہر غنچے یہاں روتے ہیں اور رونا بھی کیسا |
آنسو میں سبھی ڈوبے ہیں اور آنکھ ہے خوں بار |
چہرے میں ہے وہ نور کہ روشن ہے یہ دنیا |
تیرے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار |
بدعات و رسومات کو تو برقِ اجل ہے |
ملحد کے لیے موت تری ایک ہی چنگھاڑ |
تیرے فکر و نظر کا ہر خضر مقلد |
مانا کہ مقلد ہے خضر کا بھی یہ سنسار |
کہتا ہے جو تو لکھا ہے وہ لوح و قلم کا |
تھوکر سے تری آج ہیں گردش میں یہ سیار |
تو نے جسے پھٹکار دیا بتلاؤں خالق |
دنیا ہی کیا اس پر تو ہے اللہ کی پھٹکار |
جرات بھی کرے کیسے وہ اسلام کا بدخواہ |
میداں میں چمکتی ہوئی خالق کی ہے تلوار |
اصحاب نبی کی کوئی کرتا ہے جو تنقیص |
کرتا ہے اسے خاک وہ خالق کا ہے انگار |
ایمان کی منقار میں ہر کفر ہے محبوس |
فتراک میں مغرب کے خداوند گرفتار |
کچھ دور نہیں بھسم کرے اب اسے یکلخت |
مغرب کے نشیمن کو ترا شعلۂ افکار |
تو نے ہی تو یاں زندہ کیا رسمِ بلالی |
تجھ سے ہی تو باقی رسمِ قبہ و دستار |
ہاں توڑ دیا عشق سے ہر ظلم کا پنجہ |
اللہ نے بروقت کیا تجھ کو خبر دار |
اپنے گدازِ چشم سے ہاں آج اے خالق |
تو نے تو گراں کر دیا ایمان کا بازار |
بیدار کیے یاں کئی خوابیدہ سے ذرے |
ہر ذرہ ہے وہ جس سے ہے خورشید شرمسار |
ہے تیرے ہی سازوں سے یاں نغموں کا تلاطم |
ساغر سے ترے پی کے ہے ہر رند ہے یاں ہشیار |
پروانہ تڑپتا ہے کہ بس ہو نثارِ شمع |
ہر جلوہ تڑپتا ہے کہ کر لوں ترا دیدار |
ہے تیرا ہی شعلہ ہے جو خورشید میں گرمی |
ہے ذوقِ سفر تیرا جو عالم میں ہے رفتار |
ممکن نہیں گیدڑ سے مرے شیر کی تسخیر |
ہرچند کہ کوشاں ہیں سب مغرب کے بھی عیار |
ہرچند ہو عالم کو مسیحا کی تمنا |
تجھ سے ہی دوا مانگے مسیحا سا بھی بیمار |
شاداں ہے یہ دنیا فقط تسخیرِ قمر سے |
تو حدِّ ثریا سے گزر جاتا ہے سو بار |
تھا تیری نظر کی تبِ خورشید کا نتیجہ |
ہے عالمِ الحاد جو ایمان سے سرشار |
ایماں کی تب و تاب کو تیرے کوئی دیکھے |
رہبر کی مدح اور یہ ثانی کا بیاں اف |
میں اتنا ہی کہتا کہ تو ملت کا ہے غم خوار |
گفتار تجھے لگتی ہے اک زہرِ ہلاہل |
خرسند ہے کہ تجھ میں ہے بس گرمیٔ کردار |
تو نے تو انھیں ان کے ہی جالوں میں کیا قید |
مغرب جو ہے مؤمن کے لیے در پئے آزار |
بیدار کیا تو نے ہی تو آہ و نوا سے |
رحمت ہے تو ملت کے لیے اس میں کیا تکرار؟ |
تو حق کو کہے حق تو ہے یہ تیرا طریقہ |
ظلمت کو کہے نور وہ مغرب کا ہے ہنجار |
تیری ہی تو گونجی ہے یاں تکبیرِ مسلسل |
تو نے ہی تو توڑے ہیں سبھی کفر کے پندار |
ہیں اور بھی محفل میں یہاں ساقیٔ خوشتر |
یکتائی کا اقرار ہے کیا خویش کیا اغیار |
ایماں کے سفر میں ہے یہاں میرِ سفر تو |
پیرو ہیں ترے آج سب اسلام کے انصار |
مغرب کے خداوندوں نے تو کر دیا محبوس |
اسلام ہے آزاد ہے یہ تیرا ہی اصرار |
تیری نظر و فکر سے ہر شے میں بصارت |
بے نور بھی یاں ہو لیے اب صاحبِ ابصار |
تو نے تو اس شطرنج میں مہرہ ہے وہ مارا |
یورپ کے خداوندوں کی کاوش ہوئی بے کار |
پیتے ہی تری مے کو بہکتے ہی گئے ہیں |
ہر چند کہ مے خانے میں ساقی کی ہے بھرمار |
حیران ہوں خود کیا کہوں میں ایسی ادا پہ |
دل بر کہوں دل جاں کہوں یا پھر کہوں دلدار |
تو چاہتا ہے جیسا خدا کرتا ہے ویسا |
ہے تو وہ گدا جس کا ملِک ہو کفش بردار |
تیرے برقِ گرم سے ظلمت کدہ روشن |
بلکہ ہوئے انوار بھی اب صاحبِ انوار |
حق نے تو تجھے کر بھی دیا اپنا شناور |
خوش تیرے نفسِ گرم سے ہیں ہادیٔ مختار |
تو نے کیا مغرب کی تجارت سے خبردار |
آگاہ کیا نافع ہے اسلام کا بیوپار |
ہے تیرا طریقہ رہِ ابرار سے مربوط |
ہے تیری نگہ بس نگہِ حیدرِ کرار |
تو نے جو پلائی ہے تو مدہوش ہیں اب تک |
تا حشر نہیں ہوش میں آئیں گے یہ مے خوار |
ہاں عشق بھلا کیوں رہے اب حسن کا نوکر |
مل عشق کے رخسار پہ یہ غازۂ سنگار |
پھر ہوگا نہیں تو کبھی پھولوں کا گلومند |
ہاں دیکھ تو تو چل کے کبھی وادیٔ پر خار |
پھر عشقِ محمد سے کرو دنیا کو آگاہ |
مغرب نے تو اب بدلا کیے عشق کے معیار |
تسبیحِ محمد تجھے پہنچا دے فلک تک |
تہذیبِ فرنگی کا اگر توڑ دے زنار |
ہوں گے بھلا ایماں کے شرارے کبھی برپا |
دل پر ترے تہذیبِ فرنگی کا ہے زنگار |
ہے تجھ کو تنزل کے تھپیڑوں کی شکایت |
تو خود ہوا تہذیبِ محمد سے یوں بیزار |
اب بھی نہیں کچھ دور کہ از عشقِ محمد |
ویرانۂ اسلام کو کر سکتے ہو گلزار |
ثانی ترے اشعار کے ان برق و شرر سے |
ہو سکتا ہے جل جائیں گے حساد کے گھر بار |
کھنچتے ہیں رقیباں بھی ان اشعار پہ ثانی |
لگتا ہے کہ طلسم میں پروئے تو نے اشعار |
ہے کون سا گوشہ نہ گئی تیری صدا واں |
تا دشت و جبل بر و بحر دامنِ کہسار |
معلومات