جب سے ان کی نگاہ برہم ہے |
دل کا مت پوچھ کیسا عالم ہے |
مجھ کو شعلوں سے کارِ شبنم ہے |
یہ ادائیں تو مجھ کو مرہم ہے |
ہم کو تم سے کہاں شکایت ہے |
اپنی قسمت پہ اپنا ماتم ہے |
گو ثریا کے بھی قریب گیا |
کس قدر دور خود سے آدم ہے |
حسن کا راز پھر نہیں سمجھا |
تیری یہ داستاں بھی مبہم ہے |
اب کے زخموں کی کھیتی دیکھیں گے |
وہی فصلیں ہیں وہ ہی موسم ہے |
اشک آنکھوں سے ختم ہیں شاید |
خوں کا بہتا ہوا سا قلزم ہے |
پھر وہی راہ و رسمِ یاری ہے |
اک عنایت ہے اور پیہم ہے |
ساری دنیا کو ہم کیوں بتلائیں |
میرے رازوں کا تو تو محرم ہے |
سب غرض کے پجاری نکلے ہیں |
کوئی ساتھی نہ کوئی ہمدم ہے |
کچھ صلیب لائے ہیں مری خاطر |
مجھ کو سمجھے کہ اپنی مریم ہے |
حسن میں تاب ہے وہی پچھلی |
عشق میں سوز تو ہے کم کم ہے |
معلومات