فعولن فعولن فعولن فعولن |
قمر کو ملا ہے ترے در کا صدقہ |
چمکتا ہے لے کر ترے رخ سے جلوہ |
نجومِ فلک کی دمک کا ہے تو راز |
تری بھیک پاکر ہیں یہ بھی تو خندہ |
یہ خوشبو جو پھیلی ہے سارے دہر میں |
پسینے ترے کا ہے اک یہ تو قطرہ |
گلوں میں ترا رنگ ہر سو ہے پھیلا |
جدھر دیکھو تیرا ہی ملتا ہے نغمہ |
چمن ہستی کا ہے سجا تیرے دم سے |
بنایا خدا نے تجھے رازِ خفیہ |
تھا وہ کنزِ مَخْفِی بنایا تجھے پھر |
کہاں جانتا کوئی پھر رازِ بستہ |
خدا بھی ملا ہے ترے در سے آقا |
ترے در سے ملتا ہے اس در کا رستہ |
تری شان تو بس خدا جانتا ہے |
کہے کوئی اور کیسے تیرا قصیدہ |
بیاں کرتے ہیں انبیا بھی تری شان |
تری عظ متوں کا سناتے ہیں خطبہ |
ملے ہیں رسولوں کو بھی اونچے رتبے |
ترے پائے کا پر کسی کا نہ رتبہ |
خدا کے سوا کس سے ہوں گے بیاں یہ |
تری ذات کے سب خصالِ حمیدہ |
ثنا میں رہے رضْوِی مشغول ہر دم |
دمِ آخری بس یہی ہو وظیفہ |
کلام :ابوالحسنین محمد فضل رسول رضوی کراچی |
معلومات