اب چل آۓ کبھی میرا مہمان ہو جاۓ۔
ہر سو بہار سجے رت ساری جوان ہو جاۓ۔
ہم تیری آمد پر خوش ہوں گے اتنا ہمسر۔
زندگی میری بدلے اک احسان ہو جاۓ۔
تیرے گیسوؤں کے پیچ و خم سے بچا گر۔
سیرت گر ہے بدلے خفا اوسان ہو جاۓ۔
جب اک بار مجھے دیکھے پھر پھیر نظر لے۔
خیر نظر سے اب سچا انسان ہو جاۓ۔
تم احسان کرو اپنا کچھ وقت مجھے دو۔
ہلچل ختم حیات بھی پھر آسان ہو جاۓ۔
رونق زندگی تم سے بشاشت بڑھ جائے گی۔
بدلے نہ تو میرا پختہ ایمان ہو جاۓ۔
زندگی کیوں اتنی گمنام ہو گزرے چلی ہے۔
ایسا کر جا تیرا چرچا زبان ہو جاۓ۔
گر آنکھوں سے چھلک پڑیں سارے شبنمی موتی۔
بن بادل بارش برسے گھمسان ہو جاۓ۔

0
43