چھٹکارا کیسے پائے گا یاں مدعا علیہ |
تم ہی ہو مدعی یہاں تم ہی گواہ ہو |
لعنت کرو ستم سے اگر شکوہ ہو مجھے |
دے دو سزا اگر مرے لب پر بھی آہ ہو |
کمزور ہوں اگرچہ زمانے کا ساتھ ہو |
گو نہ کسی کا ساتھ ہو تیری پناہ ہو |
پاگل ہے دل اگر اسے کہتا ہے حف نظر |
کافر ہوں پھر اگر کبھی اس بت کی چاہ ہو |
کرتا ہوں اس کو سجدہ تو طاعت شمار کر |
ہم جیسے پارسا سے تو شاید گناہ ہو |
گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن |
مسلم ہو دل ترا تو یہ کافر نگاہ ہو |
آتی ہے ہر جگہ سے وہی کفر کی صدا |
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو |
ہر جا ہیں خود نمائی کے طلسم پڑے ہوئے |
ہو قتل کی جگہ کہ تری جلوہ گاہ ہو |
تاریکی کے وجود سے ہے روشنی یہاں |
فقراء کے دم سے ہی تو تمہیں بادشاہ ہو |
شعلہ بجاں ہو بت کو کروں سجدہ گر کبھی |
ناصح کو گرچہ بت سے وہی رسم و راہ ہو |
خورشید و ماہ تم پہ کرے رشک ہاں مگر |
افسوس تم کو زعم ہے خورشید و ماہ ہو |
ہم گر وفا کریں کہیں مجرم ہمیں سبھی |
اور تو کرے ستم تو تری واہ واہ ہو |
اہلِ ہنر کی اب یہاں کوئی قدر نہیں |
لمبی کر کرو قبا کو تو اونچی کلاہ ہو |
سجدہ سے بت خدا ہوئے سنتے نہیں تھے ہم |
پندار تم کو ہے کہ یاں تم ہی الہ ہو |
پوجوں گا اے خدا تمہیں وعدہ مرا رہا |
گر پھر بتوں سے اپنی نہ کوئی نباہ ہو |
گر راہِ عاشقاں کے ہمیں میرِ کارواں |
راہِ ستم گراں کے بھی تم سربراہ ہو |
معلومات