جب یاد تمہاری آتی ہے دل میرا ڈوبتا جاتا ہے
خود پیار سے لوری دینے کو پھر درد سرہانے آتا ہے
اُس پیڑ پہ سن لو کیا بیتی جس پیڑ پہ جھولتے گاتے تھے
وہ پیڑ تمہارے بعد سجن پتوں سے بہت گبھراتا ہے
میری آنکھوں میں اب چین کہاں ، میرے سوتے جاگتے نین کہاں
اِک خواب جدائ کا یارو! میری نیند اُڑا لے جاتا ہے
کب دل مندر میں دیپ جلے کب دیپ بجھے کچھ یاد نہیں
وہ شخص بھی مجھ کو یاد نہیں جو مجھ سے غزل لکھواتا ہے
خلوت کے سارے سانپ مجھے رہ رہ کے ڈستے رہتے ہیں
پھر رات کا بیری سناٹا میرا چہرہ نوچنے آتا ہے
جب دل کی کرچیاں چنتا ہوں تب اپنے آپ سے کہتا ہوں
جسے خود سے زیادہ پیار کرو کیوں دور وہ ہم سے جاتا ہے
وہ مجھ سے ملنے آئ تھی پسِ پردہ چہرہ لائ تھی
ہر روز فلک پر آنے سے یہ چاند کہاں شرماتا ہے
قربت کے موسم روٹھ گۓ سب ساتھ کے وعدے ٹوٹ گۓ
اب سامنے مت آیا کر جاں تیرا وصل بہت تڑپاتا ہے
میری ذات کنارہ چاہتی ہے پر غم کا دریا بے ساحل
اب چارہ گروں کو بلواؤ میرا سانس اُکھڑتا جاتا ہے

67