جگر کی بہت مشکلوں سے تھے گزرے |
ہاں گویاکہ ہم رحلتوں سے تھے گزرے |
یہ بارش یہ سرما یہ گرما کے موسم |
سبھی درد کے مرحلوں سے تھے گزرے |
نتیجہ جدایٔ بن اور کچھ نہیں تھا |
یوں چاہت کے سب فیصلوں سے تھے گزرے |
تھی چاہت کہ جن کو یہ روحانیت کی |
وہ لاہوت کے زلزلوں سے تھے گزرے |
تری بزم میں جلنے سے قبل ہم سو |
گرم صحرا کی منزلوں سے تھے گزرے |
ذرا اک کڑی تو مرے نام ہوتی |
محبت کے ہم سلسلوں سے تھے گزرے |
معلومات