غزل
بندے کو درِ عشق دعاوں سے کیا ملا
نمرود سا یہاں کے خداوں سے کیا ملا
سارے جہاں کو خود کا مخالف بنا لیا
تو ہی بتا کہ تیری رضاوں سے کیا ملا
کھوٹا تھا جن کا عشق وہ دریا کے پار تھے
میں نذر آگ مجھکو وفاوں سے کیا ملا
سب داغدار جلوہ گر اعلی مقام ہیں
سوچیں کہ مکر و جھوٹ دغاوں سے کیا ملا
ٹوٹی ہوئی سی داد شکن دار حوصلہ
حمزہ ذرا بتا کہ مداحوں سے کیا ملا
شہاب حمزہ

0
133