جب ان کا ذکر خیر آیا تو گوشِ دل سے سنتے تھے
برائی کی گئی تو کان بہرے کر لیے ہم نے
بجھے دل کو تقاضے عشق کے کب راس آنے تھے
جب ان کے ہونٹ پر آئے سنہرے کر لیے ہم نے
کسی کی یاد پر دنیا کی الجھن حملہ کرتی تھی
سو تازہ دھڑکنوں کو دل پہ پہرے کر لیے ہم نے
اگر شرطِ سفر دو چار الٹے کام کرنے تھے
تو کوئی کارواں سے کہہ دے: ٹھہرے کر لیے ہم نے
وہ خود کو دو رخا کہہ کر بڑا اتراتا پھرتا تھا
اب اپنے چہرے کو بھی چار چہرے کر لیے ہم نے
وہ ہلکا زخم دے کر جا چکا واپس نہ پھر آیا
سو اس کو یاد کر کے زخم گہرے کر لیے ہم نے

0
7