| یہاں جو اہلِ بصیرت ہی بے خبر ٹھہرے |
| یہاں پہ اندھے ہی جب صاحبِ نظر ٹھہرے |
| نہ تجزیے کی کوئی اہمیت سمجھ آئی |
| نہ تبصرے ہی کسی دل میں با اثر ٹھہرے |
| نہ روشنی کی صداقت پہ اعتبار آیا |
| نہ زندگی کے تقاضے ہی کار گر ٹھہرے |
| نہ آئینے میں نظر آئے داغ چہرے کے |
| نہ ایک پل بھی جہاں میرے شیشہ گر ٹھہرے |
| نہ چشمِ آرزو جم پائی منظروں پہ ذرا |
| نہ دل ہی آج کسی شوخ روپ پر ٹھہرے |
| جنہوں نے سولی پہ لٹکایا ابنِ مریم کو |
| صلیبیوں کی نظر میں عزیز تر ٹھہرے! |
| گھٹن سی ہوتی ہے اس ابلہ فربہی میں مجھے |
| مگر خدا نے تو پیدا کیا انہی میں مجھے |
معلومات