| چلتی ہوا میں خواب بکھرتے، لمحے سہانے روٹھ گئے |
| تقدیر کے یہ رنگ تھے شاید، کچھ راز جانے روٹھ گئے |
| سورج کی لو میں رقص تھا سایہ، بادل نے دل کی بات کہی |
| دھوپ کی گلی میں شام سمٹ کر، سب درد پرانے روٹھ گئے |
| صحرا کی وسعت، آتش کے شعلے، اور ایک نسیمِ نرم خرام |
| پیمان تھے جو چاند نے باندھے، وہ خواب ستمگر روٹھ گئے |
| ویران راہوں میں گونجتی یادیں، پلکوں پہ بکھری شبنمی روش |
| بادل کی اوٹ میں چاند چھپا ہے، مہتاب کے گانے روٹھ گئے |
| زنجیر لمحوں کی ٹوٹ رہی ہے، سایہ بھی میرے ساتھ نہیں، شاکرہ! |
| اس دل کے دامن میں جلتے ارماں، سارے فسانے روٹھ گئے |
معلومات