ہوا کے ساتھ چلی ہے جمال کی خوشبو
درخت بول اٹھے ہیں، کمال کی خوشبو
پرند شاخ پہ چپ ہیں، مگر فضا روشن
کہیں چھپی ہے ابھی بھی غزال کی خوشبو
زمیں پہ اوس نے لکھ دی کوئی پرانی نظم
ہوا میں گونجتی ہے سوال کی خوشبو
گلاب سو کے بھی خوشبو میں بات کرتا ہے
لبوں پہ ٹھہری ہوئی ہے خیال کی خوشبو
ہنسی میں گھل کے وہ آنکھیں بھیگتی رہی ہیں
چھپی ہوئی ہے وہاں بھی ملال کی خوشبو
پرند چپ ہیں مگر شام بولتی ہے کہیں
اداس رستوں سے آئی وصال کی خوشبو
گھنے شجر کے تلے، دھوپ بھی ٹھہرتی ہے
کسی کا لمس لیے ہے کمال کی خوشبو

0
13