تمہارے حسن پہ آیا زوال تم جانو
ہمارے عشق پہ کوئی زوال تھوڑی ہے
شرابِ ناب جو پی ہے تو قے ہوئی ہے مجھے
تمہارے دہنِ مقدس کی رال تھوڑی ہے
کسی بے مایہ پہ تجھ پہ کدال تھوڑی ہے
ہم مانگتے ہی رہیں گے تمہیں بوقتِ سحر
یہ دستِ عشق ہے دستِ سوال تھوڑی ہے
گدا سمجھ کے مجھے مال و زر نہیں دینا
یہ لیڈروں کو بھی اس کا خیال تھوڑی ہے
تجھے ملیں گی تری منزلیں تو ہمت کر
ہیں مشکلیں بھی مگر یہ محال تھوڑی ہے
ہمیں نے طے کیں یہ راہیں مہیب منزل کی
اس کارنامے میں تیرا کمال تھوڑی ہے
ابھی جہاں میں جو تاریکیوں کا ڈیرہ ہے
تری ہی چال ہے اختر کی چال تھوڑی ہے
وفا کے نام پہ یاں صرف دھوکہ دیتے ہیں
سفالِ جام ہے جامِ سفال تھوڑی ہے
قیس فرہاد ہیر رانجھا سب مرے شاگرد
کہ میرے عشق کی ثانی مثال تھوڑی ہے
نگاہِ حسن میں بس پیش و پس کی دنیا ہے
نگاہِ شوق میں یہ اعتدال تھوڑی ہے
کسی کو اس کی محبت کا کب جواب ملا
تمہارے دل میں بھی لیکن ملال تھوڑی ہے
پوری حیات کٹی بغض میں عداوت میں
ہمارے قتل سے لیکن نہال تھوڑی ہے
ہمارے یاروں نے یہ کہہ کے ہم کو چھوڑ دیا
تمہارے سر پہ ہے ہم پر وبال تھوڑی ہے
تسلی دیتا ہے ناصح اسے کہاں معلوم
ہے وعدہ وصل کا لیکن وصال تھوڑی ہے
ہدا صنم کا ہمیں جس میں کچھ وصال ملے
ملی تھیں منزلیں جس میں وہ سال تھوڑی ہے
برہمنوں نے کہا ہے یہ سال تھوڑی ہے
ملا جو مال تو فکریں کسی کی کیوں کر ہو
جمالِ فکر ہے فکرِ جمال تھوڑی ہے
گو جتنی تاب ہوں ان دل فریب اداؤں میں
یہ ان اداؤں کا بہتر مآل تھوڑی ہے
ادب کا درس ہے بس عشق میں مرے ثانی
مجھے اس عشق میں مال و منال تھوڑی ہے
فرنگ نفرتِ مذہب کا بیج بوتے ہیں
ہمارے ملک کا یہ خط و خال تھوڑی ہے
غرض پرستی میں کٹتی ہے کس کی شام و صبح
تمہارا حال ہے یہ میرا حال تھوڑی ہے
لہو کے بدلے ہمیں گل کے ساتھ شبنم دو
فری میں جس کو لٹا دیں وہ مال تھوڑی ہے
یہ میرے عشق نے تھپڑ کیوں مار دی تم کو
تم اپنی سوچو مری گال لال تھوڑی ہے

0
71