تیرے دیوانوں کو خوفِ دار کیا
راحت و غم ایک، ہوں بیزار کیا
تو نہ ہے تو ساغر و مے کچھ نہیں
تجھ بنا یہ رونقِ دیوار کیا
ہو گئی ہے قتل سے رنگین یہ
ساری دنیا کوچہ و بازار کیا
آئیے اور قتل کیجیے بے دریغ
مائلِ آزار کو آزار کیا
تیرے سارے ظلم ہیں لطف و کرم
خوار جو تجھ سے ہوا وہ خوار کیا
بے عمل یہ علم ہے تاریک شئے
دل میں ہی جلتا نہیں انگار کیا
بت سے کیوں کر ہو وفا کی اب امید
سوتے مردوں کو کریں بیدار کیا
ہوں وہ چاہے محوِ جلوہ ہر گھڑی
خواہشیں مٹتی نہیں سو بار کیا
زندگی کی ساری خواہش ختم ہیں
اب شفا پائے ترا بیمار کیا

0
30