یاد میں تری میرا دل مچل گیا ہوگا |
اور تڑپ تڑپ کے دن بھی یہ ڈھل گیا ہوگا |
ہم نے رکھے ہیں دل پر زخم یہ محبت کے |
ا ور وہ زخم بھی کیا آخر جو سل گیا ہوگا |
میرا یار تھا دل کا وہ بہت ہی سیدھا سا |
وہ بھی باتوں میں غیروں کی پگھل گیا ہوگا |
حادثہ ہے میری زیست میں فراق جاناں پر |
تیرے آنے سے جانا یہ بھی ٹل گیا ہوگا |
اس سے پہلے میں اظہارِ تمنا کرتا بھی |
اپنی چال بھی دشمن کب کی چل گیا ہوگا |
مت تو پوچھ حالِ نورِ نگاہ ان کی دوست |
پلکیں وہ اٹھی ہر نظارہ جل گیا ہوگا |
تیری ہے نہیں لغزش ساقی تو نہ گھبرا کچھ |
جام تشنگی سے میری اچھل گیا ہوگا |
تم نے دیر کی ہے بے حد عبیدؔ آنے میں |
اْس کا تو کسی اور سے دل بدل گیا ہوگا |
معلومات