سوچنے لگتا ہوں گر آپ کے بارے کبھی
دفعتاً آپ کی جانب ہی لپک پڑتا ہوں
کتنے خورشید پہ ہے صبحِ مقدر کا گماں
کتنے بے نور ستاروں سے چمک پڑتا ہوں
کتنی خاموشیاں خاموش کیے دیتی ہیں
کتنی آوازوں کو سنتے ہی ٹھٹک پڑتا ہوں
دل میں روشن ہیں ابھی کتنی امیدوں کے چراغ
کتنے بے نام اجالوں پہ لپک پڑتا ہوں
عشق سے کوئی تعلق نہ جنوں سے رشتہ
بے وجہ بیچ میں کیوں جانے ٹپک پڑتا ہوں
موجزن ہے مرے دل میں یوں ترے حسن کا غم
جامِ لبریز کی مانند چھلک پڑتا ہوں
جا چکا جس پہ معلق تو رہا کرتی تھی
تجھے امید کی قندیل! اترنا کب ہے؟

0
3