جو کام چوری کی دلدل میں گرتے ہیں
وہی غریبی میں لوگو گرتے ہیں
کسی کے سامنے رونا گزند کا
اسی میں باولے اجڑے وہ پھرتے ہیں
مجھے سکوں نہ ملا آہوں سے بھی یار
یہاں پہ مجھ سے بڑی آئیں بھرتے ہیں
ہیں گونج جاتی مرے کانوں سسکیاں
مرے ہی سامنے بے بس جو مرتے ہیں
چٹانوں سا رہو ثابت قدم رضؔی
وہی تلاطمِ موجوں نہ گھرتے ہیں

28