درد پہلو سے لپٹ کے چل رہا ہے
اورمحبت گنگناتی جا رہی ہے
دور افق میں ڈھلتے ڈھلتے شام کی دھوپ
تیرے عارض میں سماتی جا رہی ہے
رات اک مدہوش سی ناگن ہو جیسے
چاندنی میں سر سراتی جا رہی ہے
چڑھتی سی اک ندی ہے الفت یہ تیری
لہو میں رستے بناتی جا رہی ہے
کس کی یہ چشمِ عنائت ہے کہ میری
راہ میں تارے بچھاتی جا رہی ہے

0
46