ان کی محفل میں جا کے اسے بھی بلا لیا ہے۔ |
پھل کلیوں سے ان کا دامن بھی سجا لیا ہے۔ |
سیہ رات میں تیری یاد کو دل میں بسا لیا ہے۔ |
دیا ہے جو غم اس غم سے دل کو بہلا لیا ہے۔ |
میری اب سنتے نہیں نہ سنیں تو نہ بات سہی۔ |
کھلی بات کی اہلِ بزم انصاف کرا لیا ہے۔ |
یہ گزر جاۓ گی لمبی شب ذرا حوصلہ رکھ۔ |
جینا مشکل نہیں اس کے بغیر لگا لیا ہے۔ |
محفل میں سماں بندھا جاۓ گا تم سے اک ایسا۔ |
سب عاجزی کر کر وقت ہی سارا نبھا لیا ہے۔ |
کہ ستارے چمک کھو رہے ہیں ہونے سحر تک سب۔ |
حد سے قصے کو خود ہی زیادہ بڑھا لیا ہے۔ |
ساری شب کروٹیں اس نے بھی بدلی ہوں گی۔ |
جب شب کو جگاۓ رکھا کیسے سلا لیا ہے۔ |
اب رات کا پچھلا پہر ہے دھندلکا سا ہونے کو ہے۔ |
کیوں نالاں ہو بیدار آنکھوں کو شب سے جگا لیا ہے۔ |
معلومات