داغ لگا ہر زخم سہا دل مضطر اپنا سلائے لیا۔ |
شام ملا تو بہانہ کیا دامن ایسے بچائے لیا۔ |
دلکش تیری ادا ہے ایسی ادا پر جان و دل صدقے۔ |
اپنے ہاتھوں کا ہالہ کر پھر دل سا سجا کے چھپائے لیا۔ |
خون جگر ہے میرا عرق یہ تجھے اب رنگ لگا ہے کیوں۔ |
کیا سمجھا هے جب چاہا لکھا جب چاہا مٹائے لیا۔ |
اب دل ایسی قدر دھڑکا جانے کس بات کا ہے خدشہ۔ |
شور وہ کیا ہے حشر سے پہلے حشر بنائے اُٹھائے لیا۔ |
اتنا روئی ہیں میری آنکھیں اب اشک نه ان میں رهے۔ |
اب کب خون تھا خشک مثل یہ غبار بنا کے جلائے لیا۔ |
دیکھنے کو وہ دیکھتے ہیں جی بھر کے مگر دل سنبھلے تب۔ |
جب چاہا اپنا آنچل نازک ہونٹوں میں دبائے لیا۔ |
رُت آئی موسم بدلا ہے شب ڈھلی چاند بھی نکلا ہے۔ |
چہرہ دکھایا کبھی اپنا مکھ پردہ کر کے چھپائے لیا۔ |
سنیے بنده پرور ساری تمهاری نوازشیں هیں مجھ پر۔ |
بات تھی کیا کاغذ پرلکھ کر حرف بہ حرف پکائے لیا۔ |
ہر اک بات جو مان لی جانو سخن دانی کر جان لی ہے۔ |
جب چاہا یوں سجائی یہ محفل رنگ الگ سے جمائے لیا۔ |
جی میں کیا آیا ہے پہلے رلایا پھر سے ہنسائے لیا۔ |
اک مدت تک یاد رکھا پھر بھول بھلا کے بلائے لیا۔ |
معلومات