| غزل |
| زندگی کی ملے بہار مجھے |
| اپنا کرلے تُو میرے یار مجھے |
| بس تری دید کی ہی مستی کا |
| کاش مل جائے افتخار مجھے |
| اب سدا کے لئے مجھے رکھ لے |
| دل کو بھائے ترا دیار مجھے |
| نور کی مل گئی پھوار مجھے |
| تُو ہے میرا فقط ہے تُو میرا |
| پیار سے یوں کبھی پکار مجھے |
| نفس پر اپنے حکمرانی کا |
| دیدے مولیٰ تُو اختیار مجھے |
| میرے دل کا قرار تجھ سے ہے |
| پھر نہ کرنا تُو بے قرار مجھے : |
| اب سکت ہی نہیں ہے بازو میں |
| کردے ہر امتحاں سے پار مجھے |
| ہے یہ حسرت کہ پاک ہو جاؤں |
| "اپنے ہاتھوں سے تُو سنوار مجھے" |
| مجھکو منزل پہ پل میں پہنچا دے |
| بس اسی راہ سے گزار مجھے |
| میں رہوں مست اپنی ہستی میں |
| دید کا ہو جو افتخار مجھے |
| مجھکو دیکر حصارِ بینائی |
| اپنی آنکھوں میں تُو اتار مجھے |
| میں سخی نام تیرا رٹتا ہوں |
| آئے دل کو سدا قرار مجھے |
| انجینیر سخی سرمست گلبرگہ شریف |
معلومات