چپکے سے آتے دل کی کہتے اور سنا کر چل دیے ہوتے۔ |
پھر آنسو نہ چھلکتے جو روٹھے کو منا کر چل دیے ہوتے۔ |
آہ و زاری ختم ہو جاتی تیرے پہ بنتی کچھ سمجھ آتی۔ |
آنگن میں اپنا دل میرے سجاتے سجا کر چل دیے ہوتے۔ |
ہوش کہاں رہنا تھا پھر دل موج و مستی میں رہنا تھا۔ |
اپنے ہاتھوں سے جام پکڑ تے پلاتے پلا کر چل دیے ہوتے۔ |
سلسلہ ایک ایسا شروع ہو جاتا ختم ہی ہونے نہ آتا۔ |
بزم بلاتے ہم جاتے پھر آزما کر سب چل دیے ہوتے۔ |
کشیدگی مٹ جاتی ایسی نہ کوئی صورت پھرنظر آتی۔ |
کاش پلٹ کر آتے رنجش دور مٹا کر چل دیے ہوتے۔ |
ان سے پیار کی ایسی امید ایسی آشا بندھ جانی تھی۔ |
پھر وہاں رہتے اپنے دل کی پیاس بجھاکر چل دیے ہوتے۔ |
انجمن آرائی ہوتی پھر سے کمال پذیرائی ہوتی دل۔ |
ہم پھر پاس ہی رہتے جب تک خود نہ اٹھا کر چل دیے ہوتے۔ |
معلومات