_______________________ |
منقبت حضور مفتی اعظم ہند |
________________________ |
پیکرِ وَفا تو ہے |
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
کلام ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی |
_______________________ |
پیکرِ وَفا تو ہے |
مظہرِ رضا تو ہے |
نام کا اثر تجھ میں |
مصطفٰی رضا تو ہے |
جلوہِ ازل مستور |
اس پہ ہی مٹا تو ہے |
عشقِ مصطفیٰ کا باب |
اس میں ہی گُما تو ہے |
نعتِ مصطفیٰ کی راہ |
اس پہ ہی چلا تو ہے |
دشمنانِ حق دیکھیں |
تیغِ بے خطا تو ہے |
فیضِ مُصْطَفیٰ تجھ پر |
فیضِ اَولیا تو ہے |
نورِ مُرْتَضیٰ لے کر |
آپ مُقْتَدَا تو ہے |
مُجْتَبٰی حَسَن کا فیض |
مُجْتَبٰی شَہا تو ہے |
ہے ملی حُسَینی سوچ |
رَد یزید کا تو ہے |
شور تھا بہت ہر سُو |
پر کہاں ڈرا تو ہے |
شَہْ تجھے جُھکائے کون |
کب کہیں جُھکا تو ہے |
اور کوئی خَریدے کیا |
کب کہیں بِکا تو ہے |
تو ڈٹا رہا حق پر |
اور نہیں ہٹا تو ہے |
ہٹ گئے سبھی دشمن |
جب کہیں مِلا تو ہے |
دب گئے سبھی دشمن |
ہاں نہیں دبا تو ہے |
کون چھیڑتا ہم کو |
ساتھ جب کھڑا تو ہے |
غوث کا مِلا فیضان |
غوث کی نَوَا تو ہے |
بُوالْحُسَیْن کا فیضان |
باخُدا بنا تو ہے |
ان سے ہے خِلافَت بھی |
شیخ کی صَدا تو ہے |
کون سامنے آتا |
ہیبتِ رضا تو ہے |
فیضِ احمدِ ہندی |
عام بانٹتا تو ہے |
وہ مُحَدِّثِ اَعْظَم |
اس کا دل ربا تو ہے |
خاص کی نَظَر تجھ پر |
عام کا سَما تو ہے |
پیر ہیں بہت دیکھے |
ہاں مگر جُدَا تو ہے |
دور تھی رِیا تجھ سے |
شَيخِ بے ریا تو ہے |
باپ بھی نرالا ہے |
باپ کی اَدا تو ہے |
شانِ سِلْسِلَہ ہے تو |
رُوحِ سِلْسِلَہ تو ہے |
فیضِ اِنْتِمَا دے تو |
نورِ اِنتِمَا تو ہے |
شامِ غَم بَنے اب دن |
صُبْحِ جاں فَزَا تو ہے |
کافِ کُرْبَتِ مَن دور |
سازِ خُوش نَوَا تو ہے |
درد کب رہے میرا |
درد کی دَوا تو ہے |
دور ہو مَرَض میرا |
جب مِری شِفا تو ہے |
قَلْب کو جَگائے تو |
قَلْب کی جِلا تو ہے |
ہے قَمَر بَریلی کا |
جو چَمَک رَہا تو ہے |
سب ترے فَتَاویٰ لیں |
اس کَمَال کا تو ہے |
لوگ جام پیتے ہیں |
اور پِلا رہا تو ہے |
عام خاص بنتے ہیں |
یوں کرے عَطا تو ہے |
لوگ پائیں تجھ سے رَب |
ہاں خدا نما تو ہے |
مَخْزَنِ ہِدَایَت تو |
بابِ اِہْتدا تو ہے |
علمِ فِقْہِ دیں کا فیَض |
فیضِ بے بَہا تو ہے |
اَوج پَرْ سخاوت ہے |
مَرْدِ با سَخَا تو ہے |
نور پھیلتا تجھ سے |
شَمْسِ پُرْ ضِیا تو ہے |
چودھویں مُحَرَّم تھی |
جب جِناں گیا تو ہے |
سب مُرِیدوں کا والی |
تام پیشوا تو ہے |
تھام کر ترا دامن |
میں کہوں مِرا تو ہے |
میں کروں ثَنَا تیری |
مَن کُجَا کُجَا تو ہے |
ہے گَدا ترا رضْوی |
مُرشِدِ گَدا تو ہے |
رضْوِی ہو پریشاں کیوں |
مصطفیٰ رضا تو ہے |
تو خُوشی منا رضْوی |
وَاصِفِ رضا تو ہے |
از ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی کراچی |
معلومات