اس کے لب، اس کی جبیں، اس کے بدن پر حق ہے
اس کے دل، اس کی دھڑک، اس کے نیَن پر حق ہے
اس کی لو، اس کی خد و خال و ذقن پر حق ہے
اس کے خم، اس کی مسام، اس کے دہن پر حق ہے
ہیں مرے دستِ تصرف میں وہی کومل ہاتھ
اس کی بھوؤں اس کی پلک اس کے نیَن پر حق ہے
گیسوئے تار پہ ہر خم کی سیاہی پہ بھی ہے
رخِ مہتاب کی چھنتی سی کرن پر حق ہے
لب کی سرخی پہ تو رخسار کی رنگینی پر
زلف کے خم پہ تو ماتھے کی شکن پر حق ہے
اس کے پہلو کی وہ بہتی ہوئی اس ندی پر
اس کے رخسار کے اس نیل گگن پر حق ہے
تم مرے نام جو کردو یہ بدن کا خطہ
پھر تمہارا مرے اقلیمِ سخن پر حق ہے

1
50
حق ہے

0