گرچہ وہ تلخ مزاج ہیں رہنے دو خود تلخ ایام سے بچ۔ |
سخت کلام نہ ہے بجا ہے سنجیدہ کلام کلام سے بچ۔ |
ضدی ہے کیوں کر اپنی ضد چھوڑے گا ضد کرتا ہے ۔ |
اک دن خود بکھرجائے گا کرنے دو بس انجام سے بچ۔ |
ایک جھلک دیکھا لیا ہے چہرہ آنچل کی اوٹ سے تب۔ |
چاند ملا رہا خود پر اترا رہا ہے سوچِ خام سے بچ۔ |
پھر سے چاندنی نے سب پہنا دیا ہے زمین کو نوری لباس۔ |
حدت سورج کی سہنے کا بات پی لو آرام سے بچ۔ |
زندگی عملاً نام ہے کر کے جینے کا سہل پرستی نہ کر۔ |
چلتے وقت کی چوٹ کھاؤ چلتے رہو ایسے قیام سے بچ۔ |
میری جاں اب باتیں بہت ہیں حضور رکیں تو سنیں تو تب۔ |
صبر کرو چپکے سے پی جاؤ اور کہ حسرتِ جام سے بچ۔ |
میں سوداگر تو نہیں ہوں جو سودا گیری کروں دل کی۔ |
جب کچھ کر گیا شہرت عام ہو جائے گی قدرِ عام سے بچ۔ |
معلومات