ٹاٹوں پہ تو نے زندگی ساری گزار دی |
اے نازِ فقر دست سوالوں کی پھر تلاش |
دانش ورانِ غرب کی کوشش کو دی ہے مات |
مغرب فریب تیری ہی چالوں کی پھر تلاش |
تیرا سفال ساغرِ جمشید کا امام |
سارے جہاں کو تیرے سفالوں کی پھر تلاش |
آزاد ہند ہو گیا تیری ہی فکر سے |
ہندوستاں کے واسطے ملالوں کی پھر تلاش |
ہرچند تجھ کو غیر سے الفت ہوا کرے |
اور دل کو ہے تجھی سے غزالوں کی پھر تلاش |
چرخے کی طرح تو نے نچایا فرنگ کو |
سب کو ہے آج تیرے کمالوں کی پھر تلاش |
مغرب میں ہے سبھی کو وبالوں کی پھر تلاش |
تیرے بغیر آسماں تاریک تر ہوا |
آفاق کو ہے تجھ سے ہلالوں کی پھر تلاش |
آہٹ سے تیری روحِ فرنگی میں زلزلہ |
ہر اک بشر کو تجھ سے جلالوں کی پھر تلاش |
میدانِ حرب میں ہے کمالوں کی پھر تلاش |
پیمانۂ فرنگ کا ہر رند ہے غلام |
اب ہند میں ہے تیرے پیالوں کی پھر تلاش |
پھر ذہنِ ہر بشر پہ ہے افکار کا جمود |
بزمِ خیال تیرے خیالوں کی پھر تلاش |
بزمِ بشر میں آپ سا کوئی بشر کہاں |
بزمِ مثال تیری مثالوں کی پھر تلاش |
گوہر شناس دیکھ کے حیران رہ گیا |
ہے ہند کو اب تجھ سے ہی لالوں کی پھر تلاش |
شمس و قمر کا فیض تو انسانوں تک رہا |
جن و بشر ملک کے ہی ہالوں کی پھر تلاش |
شیریں کی بزم ہو گئی تاریک گاندھی جی |
فرہاد کو ہے تیری کدالوں کی پھر تلاش |
پورا کرے ہے بسملِ لیلیٰ کی آہ کو |
ہے عاشقِ مجاز کو نالوں کی پھر تلاش |
پھر تیرے اس چمن میں ہے ظلم و ستم کا راج |
انسان کو ہے تجھ سے مسیحوں کی پھر تلاش |
ستیہ گرہ کی پھر سے وہی مانگ ہو گئی |
امن و اماں کے آہنی مردوں کی پھر تلاش |
سینے پہ گولی کھا کے کیا امن کا قیام |
تجھ مر کے زندہ رہنے ہی والوں کی پھر تلاش |
تہذیب کے فریب سے پردہ اٹھا دیا |
تہذیب کو ہے تجھ سے جیالوں کی پھر تلاش |
لاریب ہند میں ہوا اقوام کا امام |
ہے آشتی کے تجھ سے جیالوں کی پھر تلاش |
پندارِ حسن آج بہت ہے عروج پر |
ہاں عشق کو ہے تجھ سے دوانوں کی پھر تلاش |
پھر ہند ہو چلا ہے یزیدوں کا کربلا |
اب حق کے واسطے ہے حسینوں کی پھر تلاش |
اس بزمِ امن میں ہے دریدوں کا پھر ہجوم |
انسانیت کو آج حنینوں کی پھر تلاش |
معلومات