یہ دنیا مجمعِ فتنہ رہی ہے روزِ اول سے
کئی فتنے تھے میرے فتنۂ عالم سے پہلے بھی
فلک پھر شوق سے دینا مجھے رنجِ گراں مایہ
کہ خود تیار ہو جائیں اگر اس غم سے پہلے بھی
محبت کے بنا تو شاعری آتی نہیں ثانی
کئی غم چاہیے اس نوحہ و ماتم سے پہلے بھی
کہ اس بن زندگی تو بوجھ بن جائے گی یاں میری
ہاں مجھ کو موت دے مولیٰ مرے ہمدم سے پہلے بھی
بشر کے واسطے تسبیح کیوں ہوگا نہ میرا نام
فرشتوں کے درودوں میں بھی تھا آدم سے پہلے بھی
محبت نفرتوں کے راستے پروان چڑھتی ہے
مجھے تو زخم بھی کچھ چاہیے مرہم سے پہلے بھی

0
37