یہ دنیا مجمعِ فتنہ رہی ہے روزِ اول سے |
کئی فتنے تھے میرے فتنۂ عالم سے پہلے بھی |
فلک پھر شوق سے دینا مجھے رنجِ گراں مایہ |
کہ خود تیار ہو جائیں اگر اس غم سے پہلے بھی |
محبت کے بنا تو شاعری آتی نہیں ثانی |
کئی غم چاہیے اس نوحہ و ماتم سے پہلے بھی |
کہ اس بن زندگی تو بوجھ بن جائے گی یاں میری |
ہاں مجھ کو موت دے مولیٰ مرے ہمدم سے پہلے بھی |
بشر کے واسطے تسبیح کیوں ہوگا نہ میرا نام |
فرشتوں کے درودوں میں بھی تھا آدم سے پہلے بھی |
محبت نفرتوں کے راستے پروان چڑھتی ہے |
مجھے تو زخم بھی کچھ چاہیے مرہم سے پہلے بھی |
معلومات