بزمِ ہستی میں آ کے چلے بھی گئے |
کیف و مستی میں لا کے چلے بھی گئے |
آپ بستی سجا کے چلے بھی گئے |
جامِ چشتی پلا کے چلے بھی گئے |
فیضِ سردار احمد یہاں سے چلا |
وہ مِلے تو مِلے غوث و احمد رضا |
مل گئے مُصطفیٰ اور ملا پھر خدا |
رشتہ سب سے ملا کے چلے بھی گئے |
مانگنے جو گدا بھی وہاں آ گیا |
وہ سَمُندَر کَرَم کا یہاں پاگیا |
اور سبھی کو یہی بات بتلا گیا |
اپنا ہی وہ بَنا کے چلے بھی گئے |
اک جھلک سے ہمیں کیف ایسا ملا |
ہے عَیاں دیکھ لو فیض کیسا ملا |
جانشیں بھی ہمیں فیض جیسا ملا |
شیرِ نر وہ بٹھا کے چلے بھی گئے |
درد کی وہ دوا پاتے تھے نعت میں |
عکسِ نوری نظر آتا تھا ذات میں |
سوزِ جامی چھلکتا تھا ہر بات میں |
سازِ رومی سنا کے چلے بھی گئے |
ہر سو ختمِ نبوت کا چرچا کیا |
پُر خَطَر تھا سَفَر پَرنہیں دم لیا |
زلزلہ قادیاں میں بَپا کر دیا |
رضوی وہ یوں جَگا کے چلے بھی گئے |
از ابو الحسنین محمد فضل رسول رضوی |
معلومات