لمبے سفر کی چاہ ہے پر رستہ مختصر
مجبور زیست سے سبھی کا رشتہ مختصر
آنکھیں کھلیں گی بند ہو کر ہی حقیقتاً
برسوں کی زندگی لگے گی لمحہ مختصر
ہر غم کی عمر ہوتی ہے تھوڑی سی دوستو
شب کو سحر یہ دے رہی ہے مژدہ مختصر
پوجیں جسے، سدا رہے اس کے خفا کا ڈر
دستورِ بندگی کا ہے یہ نکتہ مختصر
کیوں امتحان میں ہمیں ڈالا نواز کر
ہے دل بےاختیار کا یہ شکوہ مختصر
اتنے ہوئے ہیں ٹکڑے دلِ بے قرار کے
حصّے میں میرے رہ گیا اک حصّہ مختصر
باتیں اثر ہی کھو گئی ہیں بات کیا کریں
جو دل سے ہو بیان تو اک کلمہ مختصر
ہر داستان وقت ختم کر گیا ظفر
سب ہی کہانیوں کا ہے یہ قصّہ مختصر

0
46