ہزاروں درد سہہ لیے ہیں عمر بیس سال میں
سفید بال ہو گئے ہیں عمر بیس سال میں
مصیبتوں قیامتوں اذیتوں کے درمیاں
جیے نہ تھے کہ مر گئے ہیں عمر بیس سال میں
امیدِ صبح مٹ گئی نہ جینے کی ہے آس اب
چراغ سب بجھا دیے ہیں عمر بیس سال میں
کوئی تو ہو جو تھام لے تسلی کوئی دل کو دے
کہ پست سارے حوصلے ہیں عمر بیس سال میں

0
8