سب سے اجلی و اضحی ہمارا نبی |
سب سے ازکی و اصفی ہمارا نبی |
سب سے اتقی و انقی ہمارا نبی |
سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی |
سب سے بالا و والا ہمارا نبی |
سارے جگ کا سَہَارا ہمارا نبی |
خَلقِ کل سے نرالا ہمارا نبی |
سب کی آنکھوں کا تارا ہمارا نبی |
اپنے مولی کا پیارا ہمارا نبی |
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی |
ان کا آنا خِرَاماں خِرَاماں ہوا |
راز وحدت کا سارا نمایاں ہوا |
بزمِ عالم میں کیسا چراغاں ہوا |
بزمِ آخر کا شَمَّع فروزاں ہوا |
نورِ اول کا جلوہ ہمارا نبی |
جن کے خادم ہیں کنزِ خدا کے رؤس |
جن سے روشن ہیں بزمِ ہُدا کے شموس |
جن کا سایہ ہے عرشِ خدا کا عروس |
جن کو شایاں ہے عرشِ خدا پر جلوس |
ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی |
رہ گئیں جس سے پیچھے سبھی منزِلیں |
چھپ گئیں جس کے ہوتے سبھی محفِلیں |
بِچھ گئیں جس کے آگے سبھی مخْمَلیں |
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مَشْعَلیں |
شَمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی |
جس کی موجوں سے دھلتا ہے داغِ ممات |
جس کے نغموں سے پھلتا ہے باغِ ثبات |
جس کے جلووں سے ملتا ہے نورِ نجات |
جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات |
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی |
ربطِ وحدت کی تھیں آئینہ بندیاں |
جمعِ کثرت کی تھیں آئینہ بندیاں |
قصرِ جنَّت کی تھیں آئینہ بندیاں |
عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیاں |
سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی |
حورو غلمان نے کی تھیں صف بندیاں |
انبیا کے لئے بھی تھیں حدبندیاں |
ہاں نبی سے گئیں اٹھ یہ پابندیاں |
عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیاں |
سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی |
جس پہ ہیں ختم حق کے یہ سارے سُبُل |
جس سے لرزاں ہوۓ اہل و آلِ ہُبُل |
چپ رہے جس کے آگے یہ سارے دُہُل |
خلق سے اولیا اولیا سے رسل |
اور رسولوں سے اعلی ہمارا نبی |
ماہ کھاتا ہے جس کی چَمَک کی قسم |
مہر کھاتا ہے جس کی دَمَک کی قسم |
نور کھاتا ہے جس کی جھلک کی قسم |
حُسْن کھاتا ہے جس کے نَمَک کی قسم |
وہ ملیحِ دل آرا ہمارا نبی |
ذکرِ شہ سے یہ دل کیوں نہ مخمور ہو؟ |
عشقِ شہ سے یہ دل کیوں نہ معمور ہو؟ |
یادِ شہ سے یہ دل کیوں نہ مسرور ہو؟ |
ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو |
نمکین حسن والا ہمارا نبی |
جس کے گھر سے ملی ہے خدا کی سبیل |
جس کے در پر رکھی ہے شفاۓ عَلِیل |
جس کے خادم پئیں جنَّتی زَنْجَبِیْل |
جس کی دو بوند ہیں کوثر و سَلْسَبِیْل |
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی |
جیسے عرشِ عُلا ایک ہے ویسے ہی |
جیسے لوحِ قضا ایک ہے ویسے ہی |
جیسے دینِ ہُدا ایک ہے ویسے ہی |
جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی |
ان کا ان کا تمہارا ہمارا نبی |
نسلوں تلفی اصولوں کی ہوتی رہی |
صدیوں بولی غلاموں کی لگتی رہی |
پہروں قسمت فقیروں کی روتی رہی |
قرنوں بدلی رسُولوں کی ہوتی رہی |
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی |
خیر پانے چلے ہو، عطا چاہیے |
نور لینے چلے ہو، ضیا چاہیے |
کون کہتا ہے دے کر، لو کیا چاہیے |
کون دیتا ہے دینے کو، منہ چاہیے |
دینے والا ہے سچّا ہمارا نبی |
نام ور کتنے آکر ہوئے چھپ گئے |
تاجور کتنے آکر بنے چھپ گئے |
دہر میں باغ کتنے پھَلے چھپ گئے |
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے |
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی |
بزمِ عرفان میں اصفیا راز دار |
نوعِ انسان میں اتقیا کامگَار |
دَورِ اعیان میں اولیا شاندار |
ملکِ کونین میں انبیا تاجدار |
تاجداروں کا آقا ہمارا نبی |
تا ابد نام بالا ہے جس کا وہ ہے |
ہر جگہ ذکرِ والا ہے جس کا وہ ہے |
ہر نگر نور پھیلا ہے جس کا وہ ہے |
لامکاں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے |
ہر مکاں کا اجالا ہمارا نبی |
ہر مرض کا مداوا سمجھیے جسے |
عالمیں کا سہارا سمجھیے جسے |
ہر ادا میں نرالا سمجھیے جسے |
سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے |
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی |
ہر چمن کا اجالا سمجھیے جسے |
سارے شاہوں سے اعلی سمجھیے جسے |
ہاں سبھی کا دلارا سمجھیے جسے |
سارے اونچوں میں اونچا سمجھیے جسے |
ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی |
سب خلائق سے ہے عرض کیوں دوستو |
سب ملائک سے ہے عرض کیوں صاحبو |
سب رسل سے کروں عرض کیوں سَرْوَرُو |
انبیا سے کروں عرض کیوں مالکو |
کیا نبی ہے تمہارا ہمارا نبی |
جس نے رشتے دیے ہیں ابد کے وہ ہے |
جس نے جھنڈے دیے ہیں مدد کے وہ ہے |
جس نے دورے کیے ہیں فلک کے وہ ہے |
جس نے ٹکڑے کئے ہیں قمر کے وہ ہے |
نورِ وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی |
خوانِ نعمت تو سب نے ہی پھیلا دیے |
راہِ الفت تو سب نے ہی دکھلا دیے |
نجمِ حکمت تو سب نے ہی چمکا دیے |
سب چمک والے اجلوں میں چمکا کیے |
اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی |
بن گئے جس کے جملے قضائے اَحَد |
بن گیا جس کا چاہا رضائے صَمَد |
بن گئے جس کے حمزہ خدا کے اَسَد |
جس نے مردہ دلوں کو دی عمرِ ابد |
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی |
بے کسوں کا کھِلا غنچہ دیجے کہ ہے |
بے بسوں کو سنا نغمہ دیجے کہ ہے |
آج رضوی سنا مژدہ دیجے کہ ہے |
غمزدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے |
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی |
غنچہِ فضل، رضوی یہ دیجے کہ ہے |
نغمہِ مست، رضوی یہ دیجے کہ ہے |
مژدہِ شاد، رضوی یہ دیجے کہ ہے |
غمزدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے |
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی |
حالِ دل اب سنا ان کو دیجے کہ ہے |
ہاتھ سے لے کے اب جام پیجے کہ ہے |
آج رضْوی ذرا جھوم لیجے کہ ہے |
غمزدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے |
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی |
تضمین نگار :ابوالحسنین محمد فضل رسول رضوی |
نورِ حمزہ اسلامک کالج کراچی |
معلومات