| “غزل” |
| مری طبع میں جو یہ روانی ہے، ویرانی ہے |
| مرے نس نس میں بھی کہانی ہے، ویرانی ہے |
| اب میرے حال پہ تم کو ترس آرہا ہے کیوں؟ |
| یہ جو تصویر ہے پرانی ہے، ویرانی ہے |
| یہ عیش و ریا کو جو سمجھے ہیں زیست آخر |
| یہی دنیا بھی دیوانی ہے، ویرانی ہے |
| کوئی ایسا نہیں جو درد اس دل کا سمجھے |
| سب نے ہی اپنی ٹھانی ہے، ویرانی ہے |
| چاہے میں جگانے کی کوشش بھی کروں لیکن |
| ہر اک نے نیند سجانی ہے، ویرانی ہے |
| میں نے لفظوں میں سمیٹی جو کبھی اپنی ہنسی |
| وہ بھی اب درد کی نشانی ہے، ویرانی ہے |
| میں اپنے زخم چھپاؤں بھی تو کیسے آخر |
| مرے لہجے میں بے زبانی ہے، ویرانی ہے |
| تنگ نظری کے اس حمام میں ننگے ہیں سب |
| ہر اک اک ہی میں عریانی ہے، ویرانی ہے |
| دل کے بازار میں اب جذبہ بکتا ہی نہیں |
| نہ ہی جذبہ وہی طوفانی ہے، ویرانی ہے |
| میں نے خود ہاتھوں سے ڈھایا ہے وجود اپنا |
| یہ محبت کی قربانی ہے، ویرانی ہے |
| یہ جو آنکھوں میں نمی سی ٹھہری ہوئی ہے |
| اس کے پیچھے بھی کہانی ہے ویرانی ہے |
| سالار تو چاہتا ہے بیاں کو زباں بھی ملے |
| یہ تسلسل کی طغیانی ہے، ویرانی ہے |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات