اے عمرِ رواں تو بھی ایسے خواب نہ لایا کر۔ |
یوں پردے بہت ہیں تو اور حجاب نہ لایا کر۔ |
پھر کب بیداری ہے تعبیر تو کرنے دے۔ |
مقبول ہو جاٶں گا ایسے جناب نہ لایا کر۔ |
اس موسم کی کچھ دیر پرستش کرنے دے۔ |
چہرے پڑھے ہیں کئی ایسے نصاب نہ لایا کر۔ |
کچھ استحکام مجھے بھی نصیب تو ہونے دے۔ |
ٹوٹے جائیں گے گلاب تو تاب نہ لایا کر۔ |
جب فن سیکھا ہے اب غازی بن کر بولا۔ |
پھر سے بچ نکلے گا تو سراب نہ لایا کر۔ |
اب شور نہ کر پھر سے بکھر جائے نہ صدا۔ |
تو شمار نہ کرنے والے حساب نہ لایا کر۔ |
معلومات