یہ شام ڈھلی ہے رات قریب ہونے لگی۔
عجیب کہانی دل کو نصیب ہونے لگی۔
فروتنی اتنی اٹھتی ہے میرے دل میں یہ کیوں۔
یہ دوستی اب قدر کے لبیب ہونے لگی۔
سہانی سہانی شام کی اب یہ ایسی لگن۔
کڑک یہ اٹھی ہے شام رقیب ہونے لگی۔
لیا ہے جو نام لوگ ڈرا کے آئے چلے۔
یہ دور کیا ہے اتنا کثیب ہونے لگی۔
مجھے بھی اجالا لانے کی اب طلب ہے ہوئی۔
نظام بنے ہیں زندگی ریب ہونے لگی۔
یہ بات تو مختصر ہے کہ جینا کیسے ہوا۔
قدم سے قدم ملا کہ شکیب ہونے لگی۔

0
2