پھر ہاتفِ غیبی کہا خاموش ہو ناداں |
تہذیب کو پابند کیا خود ہوا آزاد |
وہ علم کے موتی وہ رسالے وہ کتابیں |
باقی ہیں یہ سب تو ہی ہے بیزار ز اجداد |
وہ حکمت و سائنس کی پر زور بہاریں |
وہ جن سے کہ ویرانۂ مغرب ہوا آباد |
توحید تھی تجھ میں تو یہ پیدا ہوئے اوصاف |
خاکِ پائے یورپ ہوا اپنا کے تو الحاد |
تھے تیرے ہی اجداد تو زندہ ہوئی دنیا |
وہ مر چکے ہیں خاک میں ملت کے یہ افراد |
زنار فرنگی تجھے اچھا لگا ظالم |
بس خار تجھے لگتی ہے تسبیحِ خداداد |
میرے یدِ بیضا سے ہوا موسیٰ منور |
کیا خوب بہت خوب یہ اچھا کیا ارشاد |
خورشید تھا پندار نے تجھ کو کیا ذرہ |
مغرب نے تجھے قید کیا پہلے تھا صیاد |
نیرنگیِ دوراں سے ہے تو مستِ تغافل |
تعلیمِ محمد نہ رہی تجھ کو ذرا یاد |
امت کے تنزل پہ یہ آنکھ خوں بہ فشاں ہیں |
دردوں سے نہ پھٹ جائے کہیں یہ دلِ ناشاد |
الفت سے ہی تقدیر بناتی ہیں سبھی قوم |
اللہ تو منصف ہیں مگر ہم ہوئے بیداد |
منظورِ نظر تیرے لیے کل تو وہی تھا |
ہے پیرِ فلک آج کیوں تیرے لیے جلاد |
افسوس تغافل میں تو یوں مست پڑا ہے |
خرمن میں ترے آ کے لگا شعلۂ حساد |
روتے ہیں قلندر ترے آیندہ دنوں پہ |
کیا زخم ہیں تیرے کہ جو حیراں ہوئے فصاد |
نیرنگیِ دوراں سے سبھی پر یہ عیاں ہے |
مٹتی ہے سبھی شئے کہ ہر اک شے کی ہے میعاد |
تہذیبِ فرنگی تجھے سوغات لگے ہے |
معلوم بھی ہے تجھ کو کہ یہ مرض ہے معتاد |
تو زندہ ہے یا مردہ تو ہی فیصلہ کر لے |
جب بت نے تجھے دیے آیا خدا یاد |
ویرانہ بنا میری نواؤں سے ہی گلشن |
دے میری نواؤں کے لیے مجھ کو بھی کچھ داد |
معلومات