| اک زمانہ ہوا تم کو دیکھا نہیں |
| تیری یادوں میں کچھ ہم نے لکھا نہیں |
| ہم تمہیں بھولے ہیں اور نہ یاد کیا |
| تم کو لگتا ہے پر میں تو تم سا نہیں |
| یہ قلم کچھ قدم تیرے ساتھ چلا |
| تو جو جائے تو پھر یہ بھی چلتا نہیں |
| کچھ نظر سے تھی پی کچھ ترا تھا کرم |
| تیرے بعد اب تو میں جام رکھتا نہیں |
| موسمِ وصل تھا باغ بھی تھا ہرا |
| اب کسی شاخ پر پھول کھلتا نہیں |
| چاندنی بھی وہی گردشیں بھی وہی |
| تیرے بن پر یہ منظر سنبھلتا نہیں |
| وہ تو فیصلؔ مرے خواب میں تھا دکھا |
| کتنی راتوں سے اب خواب دیکھا نہیں |
معلومات