| وہ نظر، جیسے خاموش پیغام ہو |
| اک چھپی داستاں، ایک ہنگام ہو |
| پھر وہ پلکوں کی لرزش، وہ لب کی خموش |
| جیسے سب کچھ کہا، جیسے کچھ بھی نہ ہو |
| گردنِ ناز پر جھک کے ٹھہرا ہوا |
| چاند بھی دیکھتا، خود سے حیران ہو |
| جسم کی لَے میں مخمل سا احساس ہو |
| چلتی جائے تو موسم بھی رقصاں ہو |
| کمر کی وہ خم دار موجِ رواں |
| جیسے خوشبو کوئی باندھ کر جان ہو |
| بازوؤں میں ہو پون کی نرمی بسی |
| ہر ادا مثلِ تصویرِ جاناں ہو |
| تو رکے، تو گھڑی بھی نہ آگے بڑھے |
| تو چلے، تو زمانہ پریشان ہو |
معلومات