ایک خزانہ دل میں رکھا اور اس کے رکھوالے سانپ
یعنی میں نے صدیوں سے ہی اپنے دل میں پالے سانپ
جن کی رنگت ظاہر ہو گی وہ تو کچلے جائیں گے
لیکن ان سے کیسے بچیں گے جو ہونگے مٹیالے سانپ
عمر رواں گزری ہے اپنی رنگ برنگے سانپوں میں
خالہ ماموں تایا پھوپھی سرخ سفید اور کالے سانپ
زہر اگلنے کی خاطر سب پھن پھیلائے رہتے ہیں
اس کو کاٹیں اس کو کاٹیں زہر کے سب متوالے سانپ
خون جگر سے پالا جن کو اب میں انہی سے ڈرتا ہوں
جب میری دستار کو ڈھانپیں گویا بن کر جالے سانپ
توپوں اور بموں سے گرچہ جنگ کا ساماں خوب ہوا
اے آئی کے اس دور میں بھی پر لڑنے کے ہیں آلے سانپ
مدت بعد میں گاؤں آیا تھا، گاؤں تو تھا خاموش بہت
لیکن ہر جانب تھے درندے، ہر گھر پر تھے تالے سانپ

0
6