نورِ ایماں ہے ملا یہ بھی ہمیں تو کم نہیں
قرب کی راہِ خَطَر سے آشنا بھی ہم نہیں
راہِ احساں پر چلیں ہم جیسوں میں دم خم نہیں
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو مَحْرَم نہیں
مصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غَم نہیں
موجِ عصیاں کا تلاطم تو ذرا بھی کم نہیں
حشر کے دن منہ دکھانے کا ہمیں تو دم نہیں
غم کریں وہ ، مصطفیٰ جن کا وہاں ہمدم نہیں
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو مَحْرَم نہیں
مصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غَم نہیں
آشنا آدابِ مے سے ہوں بہت اے زاہدو
بس نشہ ایسا بَلا کا ہے مجھے اے عالمو
دیکھتا ہوں وقتِ مستی، میں حَرَم کو غافلو
ہوں مسلماں گرچہ ناقص ہی سہی اے کاملو
ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں
شانیں ان کی کب سمائیں گی خیالِ زاغ میں
آئیں وہ کیسے کسی کے حیطۂِ ابلاغ میں
دیکھ لو کیسے چھپی ہیں سرمۂِ ما زاغ میں
غنچے ما اَوحیٰ کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں
بلبلِ سدرہ تک اُنکی بُو سے بھی محرم نہیں
شاہ بھی در پر گدا بن کر کھڑے ہیں پیش پیش
سب لیے جاتے ہیں بیگانے ہوں ، چاہے ہوں وہ خویش
مرہمِ دل بھی ملے اس دل کو جو ہے ریش ریش
اُس میں زم زم ہےکہ تھم تھم اس میں جم جم ہےکہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
حوصلے تھے ان کے جو تابِ جمالی سہہ گئے
سامنے اس کے ستارے سب چھپے ہی رہ گئے
چاند ان سا ہے کہاں؟ اس کے صحابہ کہہ گئے
پنجۂِ مہرِ عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے
چشمۂِ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں
لوحِ محفوظِ خدا جس کو یقیناً یاد ہو
شہرِ علم و فضل جس کے دم سے ہی آباد ہو
عالِمِ اَسرار ہو ، جو صاحبِ ارشاد ہو
ایسا اُمّی کس لیے منَّت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَا رَبُّکَ الْاَکْرَم نہیں
اف قیامت کا سماں! یک لخت ہوگی وہ گھڑی
جب ہجومِ حشر میں ہر شخص کو اپنی پڑی
دھوپ بھی خورشیدِ محشر کی وہاں ہوگی کڑی
اوس مہرِ حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی
اُس گُلِ خنداں ۔ کا رونا گریۂِ شبنم نہیں
چاند سورج اور ستارے بھی انہیں پر ہیں نثار
عشق میں ان کے ہوئے جنَّ و بشر سب دل فگار
ہاں انہیں کے نام کی سارے جہاں میں ہے پکار
ہے انہیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالم نہیں
کاش! وقتِ آخری رضوی مدینے ہو پڑا
سر درِ احمد پہ ہو اور لب ہوں ۔ مشغولِ دعا
پھر رضا کی نعت پڑھ کر یوں کہے ادنیٰ گدا
’’سایۂ دیوار و خاکِ در ۔ ہو یارب اور رضؔا
خواہشِ دیہیمِ قیصر شوقِ تختِ جم نہیں
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
تضمین نگار: ابو الحسنین محمد فضلِ رسول چشتی رضوی
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

0
29