ہے پھر کون جو میرے مقابل بدلا رہا ہے۔
اب خود جا کر دور یوں کیوں دل دہلا رہا ہے۔
پھر ہم جب سے بلاتے تھے تو ہم سے برہم تھے۔
اب کہ اشاروں کنایوں میں کیا سمجھا رہا ہے۔
ایسا بھی کیا جو وہ سمجھ سکا دھیان نہ کیا پھر۔
کیا اس پاس تھا ایسا جس سے بہکا رہا ہے۔
پہلے تو میرے نام سے ڈر لگتا تھا تمہیں بھی۔
پھر کیوں میرا نام لے کر من بہلا رہا ہے۔
اب چلے آؤ تم اتنا نہ غرور دکھا تو۔
مان بھی جاؤ کہ اب کوئی منتیں منا رہا ہے۔
دور نہ جب تھا مگر ہم آپ سے پوچھتے ہیں کچھ۔
دور کھڑا زیرِ لب کیا ہے دکھلا رہا ہے۔

0
33