اس چنگل سے دامن چھڑا کر بچا لیا ہے۔
دشمن موہ لینے سے خود کو ہٹا کے بچا لیا ہے۔
تم اب شفا پکڑا سکتے نہ تھے پھر عمر لیے۔
اب ایسی مصیبت سے چھٹکارا پا لیا ہے۔
کبھی خود ہی سی کی ہیں کبھی خاموش رہے ہیں ہم۔
جی اِدھر کے اُدھر کے خیالوں سے بچا لیا ہے۔
نقصاں اٹھانے کے بعد منافع بھی ملے گا۔
کہ سمجھ آ چکی ہے خود کو بھی سب سمجھا لیا ہے۔
تیری عادت سی ہوتی جا رہی تھی کب سے۔
خود باز رکھا ہے اس عادت سے ہٹا لیا ہے۔
لکھا پھر سے مقدر مٹ نہیں سکتا کہ کر لو یقیں۔
سب اچھا نصیب مقدر ایسا سجا لیا ہے۔
دل کے آنگن کو مدت سے اک آس سی تھی۔
الفت دیا جلا کے اپنے من کو سلا لیا ہے۔
چن پھول ہی گل دستے کی لڑیاں بنائی تھیں ۔
بننا چاہا تھا ان کا ہار بنا لیا ہے۔
کہ نچوڑا دامن ہی پاکیزہ گماں میں سب۔
یہ جزا ملی عاجزی کر کے ہی سب اپنا لیا ہے۔

0
44