منافقت میں جیا نہ جائے
تعلقات کو گھسیٹا نہ جائے
اُس پیراہن کو ردی کیا جائے
جس کو اب مزید سِیا نہ جائے
محفلیں بھی اگر ہوتی بازار مانند
کسی کے جانے سے مزا نہ جائے
سخنِ دل کو دل سے سنا کریں
بس گوش لگا کر حال سنا نہ جائے
قدر مانگتی ہے ہر شی، الفاظ بھی
بےذوق بزم دلِ زندہ نہ جائے
سحر کی لُو نے، کیا نوید لائے ہوگی
انتظارِ شب کے چراغ بھجا نہ جائے
محبت تو ہوتی ہی بہلانے کی چیز ہے
کامیابی بھی یہی کہ دل بھرا نہ جائے
زوہیب ہے لکھنے کی تدبیر بھی بہتر
اگر تم سے تلخ سچ کہا نہ جائے

92