| تو کہتا ہے خواب گرے، ساز بجے نہ نغمہ بنے، |
| کیا ساز تیرے ہاتھ میں تھا؟ یا تُو خود ہی بے دَم بنے؟ |
| تو چاہتا تھا بہار چلے، اور زخم بھی نہ لگیں تجھے، |
| پھر کس نے تجھے یہ بتایا کہ گلزار میں کانٹے نہیں؟ |
| دنیا کو تو نے سمجھا کیا؟ ایک ہنسی کا میدان فقط؟ |
| یہ کائنات ہے کرب کا فن، یہ زندگی ہے ایک فنونِ ضبط۔ |
| تو مانگتا ہے روشنی، پر تیری آنکھ بند رہی، |
| تُو خود گُم صُم تھا اندر سے، باقی دنیا کب خواب بنی؟ |
| وہ وقت کہ تُو جلتا تھا، اک جذبہ، اک آگ سا، |
| اب تو فقط سائے میں ہے، اک زرد، بجھا چراغ سا۔ |
| فطرت کبھی خاموش نہیں، تُو ہی سن نہ سکا صدا، |
| پتوں میں، پانی میں، ہَوا میں، ہر شے میں بولا تھا خدا! |
| وقت نے تجھ کو موقع دیا، ہر موڑ پہ راستے رکھے، |
| تُو بھٹک کے کہتا ہے اب، کہ میرے خواب چھینے گئے؟ |
| سچ تو یہ ہے، اے درد کے شاعر! تُو خود سے ناراض ہے، |
| آئینے سے شکوہ کرتا ہے، جب چہرہ بے ناز ہے۔ |
| تُو چاہتا ہے دنیا بدلے، اور تُو نہ بدلے ایک ذرا، |
| یہ فطرت کا قانون نہیں، یہ ضد ہے، یا خوابِ سرا؟ |
| ہر شے سے پہلے خود کو بنا، وہ روشنی، وہ راز بن، |
| پھر دیکھ تیری سانسوں میں، کیسے بجتا ساز بن! |
| یہ وقت بھی تیرے ہاتھوں میں ہے، یہ فطرت بھی تیری دوست، |
| مگر شرط ہے: تُو جاگے، تُو بنے اک نیا شعور، اک نیا جوش! |
| ڈاکٹر شاکرہ نندنی |
معلومات