مرے ہیں کتنے ہی معصوم تیری دیش بھکتی میں
مگر اب تک ترے لب پر وہی دشنام ہے بھائی
اسی مٹی کے باسی کو یہیں تو قتل کرتا ہے
ترے اس کارنامے کا برا انجام ہے بھائی
تو ہی بتلا لہو سے کس نے سینچا اپنے گلشن کو
مرے خوں ہی سے تو یاں بن گیا گلفام ہے بھائی
سنوارا کتنی مشکل سے وطن کی زلفِ برہم کو
تو کیا اس خدمتِ قومی کا یہ انعام ہے بھائی
تری اس کج روی سے سارا عالم ہی پریشاں ہے
تو اپنے کارناموں سے بڑا بدنام ہے بھائی
ہیں کتنے تشنہ لب یاں پر تو غیروں کو لٹاتا ہے
کسی بھی رند کے ہاتھوں میں کوئی جام ہے بھائی
کبھی ہے نوٹ بندی تو کبھی یہ ماب لنچنگ ہے
سبھی شہری پریشاں ہیں تجھے آرام ہے بھائی
کبھی این آر سی کے نام پر بھگدڑ مچاتا ہے
لہو رو رو کے مرتا جا رہا آسام ہے بھائی
تو سر تن سے جدا کر دے اگر حرفِ شکایت ہو
تری محفل میں اہلِ شرف کا اکرام ہے بھائی
اب ہندوستاں کو ہندو راشٹر میں گھوشت بھی کرنا ہے
تری اس کھوپڑی میں کیا سے کیا اوہام ہے بھائی
کوئی روکے درندوں کو جرائم سے مظالم سے
مظالم کی وگرنہ دیکھو آتی شام ہے بھائی
کئی بچے جدا ماں سے جدا بلبل گلستاں سے
سیہ راتوں سے بھی زیادہ یہاں ایام ہے بھائی
یہیں پیدا ہوئے ہیں ہم یہیں مٹی ملائیں گے
نکل جائیں گے بھارت سے خیالِ خام ہے بھائی
وہی کشمیر جس میں تھیں کئی جنت کبھی پنہاں
جہنم کے اسی میں اب بھرے آلام ہیں بھائی

0
40