ہم آخری سانس تک وعدے نبھاتے جائیں گے
تمہارا حسن و جوانی رہے رہے نہ رہے
تمہیں تو چاہیے سنتے رہو فغاں میری
مرا یہ سوزِ نہانی رہے رہے نہ رہے
تمہارے گیسوئے خم دار کو سنواریں گے
تمہاری آنکھوں میں پانی رہے رہے نہ رہے
ابھی ہے موقع تو سنتے چلو حکایتِ دل
کہ پھر یہ شعلہ بیانی رہے رہے نہ رہے
مجھے بھی دعویٰ خدائے سخن کا ہوتا ہے
گو شعر میں وہ معانی رہیں رہیں نہ رہیں

0
74