بہار آنے سے پہلے بے زار دل تھا کب غم گسار آئے۔
فگار دل کر جگر کو چھلنی لیا تو کب سوگ وار آئے۔
جو بات گر چلتی خط کتابت سے ساری لکھ پڑھ ہو جایا کرتی۔
نہ چین ہے دل کو چارہ گر ہم بتا چلے ہیں قرار آئے۔
لو اس کے آنے سے ہر سو گل کھل ہزار ہا بن شمار آئے۔
یہ دل کا آنگن ہوا ہے روشن جو مہکے کھل لالہ زار آئے۔
یہ لاجونتی کے پھول چھونے سے مر گئے ایک بار ہائے۔
یہ کشتی کیسے کنارے لگتی بھنور سفر مَوجْدار آئے۔
صحیح رستے چلے ہیں لیکن سو سمت پلٹے سو بار آئے۔
ملے ہیں سب پھول اس کو حصّے میں میرے سارے ہی خار آئے۔
کریں نہ کیوں رشک لوگ میرے رویے پر درد میرے ہمسر۔
سجا ہتھیلی پہ دل کو مٹھی میں جان رکھ کر یوں وار آئے۔
قرار چھوڑا ہے دوسروں کے لیے ہو کر بے قرار آئے۔
ہیں جان دل پیار پر نچھاور یوں سارا کچھ کر نثار آئے۔
صدا ہوئی دل سے کچھ عداوت نہیں کی میرے نثار پیکر۔
ہوئے ہیں اس قدر چوکنّے کر کے ہم خبر دار یار آئے۔
ابر کو رحمت سے بھر دے آثار بن چلے ہیں قرار آئے۔
جو پلے ظلمت کے سائے نیچے وفا بھلا پھر کیا وہ جانیں۔
اچھوتا میرا خیال اندر مچانے ہلچل وچار آئے۔
یہ وادیِ دل زمین ہے پیار کی نہ بنجر نہ کوٸی صحرا۔
مذاق کیسا مذاکرے کرنے تذکرے درکنار آئے۔
وہ کیسے منسوب کر گئے ایک بار الفت کو میرے راہی۔
خمار اترا ملانے آنکھیں لگانے دل خلفشار آئے۔
نباہ کرنے کو دل کو محصور کر کے دلدار کر لیا ہے۔
یہ وقت گزرا تو ہے بنے بے شمار پھر انتشار  آئے۔
مزاج بدلا بھلا کیا اب چلے ہیں کر سوۓ دار آۓ۔
ہوا بھی بدلی ہے برف جو پگھلی سامنے ہم کنار آۓ۔
ہوا چلی ہے نگار مہکا غبار اترا نکھار آیا۔
فضا معطر بنی تو سدھرا زمانہ چل سازگار آئے۔

0
8